غلام رسول کا دریائے گالوان
دنیا بھر میں دریاؤں کے نام پر بچوں کا نام رکھنے کا رواج ہے۔ انڈیا میں گنگا، جمنا، کاویری، گوداوری، سرسوتی جیسے نام عام ہیں اور یہ سب انڈیا میں بڑے دریاؤں کے نام ہیں۔
لیکن ان دنوں ایک دریا کا دنیا بھر میں بہت ذکر ہے اور وہ دریائے گالوان ہے، جہاں کی وادی میں گذشتہ ایک ماہ سے انڈیا اور چین کے درمیان کشیدگی برقرار ہے اور گذشتہ دنوں یعنی سوموار اور منگل کی درمیانی رات کو دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان تصادم میں کم از کم 20 انڈین جوان ہلاک ہو گئے۔
گالوان اگرچہ تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے لیکن اس علاقے اور دریا کا نام لداخ کے ایک سخت جان قلی غلام رسول گالوان کے نام پر ہے۔
گالوان دریا قراقرم کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور چین سے ہوتے ہوئے لداخ میں شیوک دریا میں شامل ہو کر "شیر دریا" یعنی دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے گالوان تقریباً 80 کلومیٹر طویل ہے اور اس خطے میں اس کی عسکری اہمیت بہت زیادہ ہے۔
سنہ 2001 میں شائع ہونے والی کتاب "سروینٹس اور صاحبس" میں انگریزوں کے ایک خاص ملازم غلام رسول گالوان کا ذکر ہے جن کے نام پر لداخ کے شمال مشرقی علاقے کا نام پڑا۔
کتاب کے مطابق غلام رسول گالوان سنہ 1878 میں پیدا ہوئے اور انہوں نے مختلف یورپی سیاحوں یعنی "صاحبان" کے ساتھ اس دور دراز مشکل اور سنگلاخ علاقے کا سفر کیا۔
یہ سفر اس لیے بھی انتہائی مشکل ہوا کرتا تھا کیونکہ وہ ایسا علاقہ تھا جہاں نہ آدم نہ آدم زاد بس، پہاڑ، پتھر، دریا اور جنگل۔ سطح سمندر سے اس علاقے کی بلندی پانچ ہزار سے سات ہزار فیٹ تک ہے جہاں گرمیوں میں بھی بعض مقامات پر درجۂ حرارت منفی میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ جاڑوں میں درجہ حرارت منفی 30 ڈگری تک چلا جاتا ہے۔ اگر یخ بستہ ہوا اور منجمد کرنے والے ماحول سے حفاظت کے لیے مناسب کپڑے نہ پہنے جائيں تو کھلی فضا میں دس منٹ گزارنے پر کوئی بھی شخص ہائپوتھرمیا کا شکار ہو سکتا ہے۔
غلام رسول گالوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تبت، سنکیانگ، قراقرم، پامیر اور دوسرے وسط ایشائی علاقوں میں خوب سفر کیا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے مشہور کوہ پیما کے گائیڈ کا کام کیا۔
برطانوی ماہر ارضیات میجر ایچ ایچ گوڈون آسٹن کے ساتھ بھی انہوں نے سفر کیا۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان کی بلند ترین اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی پیمائش کی تھی۔ اس کی بلندی آٹھ ہزار 611 میٹر ہے لیکن بعض کوہ پیماؤں کے مطابق اس پر چڑھنا دنیا کی بلند ترین چوٹی ایوریسٹ سر کرنے سے مشکل ہے۔
غلام رسول گالوان جب 12 سال کے تھے اسی وقت سے انہوں نے بڑی سفری مہمات میں شرکت شروع کر دی تھی۔ 1890 میں انہوں نے کیپٹن ینگشبینڈ کے ساتھ یارک لینڈ کا سفر کیا تھا جو کہ اب چین کے سنکیانگ کے صوبے میں واقع ہے اور اسی کے ساتھ ان کے سفری مہمات کا آغاز ہوتا ہے۔
1899 کی مہم کے دوران انہوں نے جس دریا کو دریافت کیا تھا اس دریا کو ان کا نام دے دیا گیا۔ گالوان کو چینی زبان اور انگریزی زبان کا قدرے علم تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بطور خاص برطانوی مہم جوؤں کی اس خطے میں رہنمائی کی۔
کہا جاتا ہے کہ بعد میں گالوان برٹش جوائنٹ کمشنر کے مقامی نائب سربراہ مقرر کیے گئے اور وہ تبت سے اس علاقے کے ذریعے سامان کے نقل و حمل کے ذمہ دار ٹھہرے۔
گزشتہ چند برسوں میں چین نے اس علاقے میں بہت سی تعمیرات کی ہیں اور شاہراہ ریشم یعنی سلک روڈ کے ساتھ اس راستے کو بھی فروغ دینے کا کام کیا ہے۔ دوسری جانب انڈیا نے بھی نقل حمل کے لیے گالوانے کے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر کی ۔
دونوں ملکوں کی جانب سے علاقے میں تعمیرات اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اب علاقے میں حد بندی کی تنازع پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے وادی گالوان شہ سرخیوں میں ہے۔
Comments are closed on this story.